غزل
کہاں سے لاؤں میں شعروں میں کوئی بات نئی
کہ زندگی میں تنوع نہ تیری ذات نئی
یہ حادثہ تو اسی زندگی میں ہونا تھا
کہوں یہ کیسے، ملی ہے مجھے حیات نئی
جہاں کہیں تو چھپے گا، تلاش کر لوں گا
نہیں ہے میرے لیے تیری کائنات نئی
یہ زندگی تو ہمہ وقت ایک جیسی ہے
نہ کوئی دن ہے پرانا، نہ کوئی رات نئی
ہر ایک پل مری آنکھوں سے خون ٹپکا ہے
ہر ایک لمحہ ہوئی دل پہ واردات نئی
جو متّحد ہوں مسلماں تو میرا دعویٰ ہے
پھر آج کوئی کہانی لکھے فرات نئی
جبھی تو اس توجہ نہ دی کسی نے فصیحؔ
کہ تیری جیت نئی ہے نہ میری مات نئی
شاہین فصیح ربانی