ہاتھ پر سرسوں جمی تھی ، پر مری مانے گا کون
حُور دُنیا میں ملی تھی ، پر مری مانے گا کون
خوشنما ، قوسِ قزح تھی ، جگنوؤں کے جسم پر
تتلیوں میں روشنی تھی ، پر مری مانے گا کون
فاختہ مہکا رہی تھی ، خوشبوؤں سے باغ کو
ہر کلی ہی کُوکتی تھی ، پر مری مانے گا کون
ریت کی برکھا میں دُھل کے ، کھِل اُٹھے تازہ گُلاب
بادلوں میں تشنگی تھی ، پر مری مانے گا کون
شَہرِ خاموشاں میں نِصفِ شَب کی سُوئیاں ملتے ہی
زِندگی ہی زِندگی تھی ، پر مری مانے گا کون
آنکھوں دیکھا واقعہ ہے ، ایک ضِدّی دِل رُبا
اِس غزل پر مر مٹی تھی ، پر مری مانے گا کون
مُلک میں وُہ اَمن تھا کہ بادشہ کے حُکم پر
۔’’جُرم‘‘ کی گھنٹی بجی تھی ، پر مری مانے گا کون
آئینے سے جب ذِرا سا ، دُور ہٹ کے رَو پڑا
عکس نے آواز دی تھی ، پر مری مانے گا کون
شاخ سے بچھڑی کلی پر ، شبنمی قطرے نہ تھے
وُہ تو تتلی رَو رہی تھی ، پر مری مانے گا کون
شَک پرست اِحباب کو میں ، قیس گو یہ کہہ تو دُوں!۔
یہ غزل ’’کچھ‘‘ عام سی تھی ، پر مری مانے گا کون
Merey jaisi aankhon walay jab Sahil per aatay hain
lehrain shor machati hain, lo aaj samandar doob gaya
Very Nice Thanks For Sharing
ιf υ lιкєd муωσяк ιиcяєαѕє му яєpυ αtlєαѕt