نبوت سے قبل حضرت شعیب (علیہ السلام) کے ہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام بکریاں چرایا کرتے تھے۔ ایک دن ایک بکری ریوڑ سے الگ ہو کر کہیں کھو گئی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جنگل میں اسے آگے پیچھے تلاش کرتے کرتے بہت آگے نکل گئے۔ اس سےآپ علیہ السلام کے پاؤں مبارک پر ورم آ گئے اور زخمی بھی ہو گئے۔ بکری تھک ہار کر ایک جگہ کھڑی ہو گئی تب جا کر کہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ آئی۔ آپ نے اس پر بجائے غصہ اور زدو کوب کرنے کے اس کی گرد جھاڑی اور اس کی پشت اور سر پر ہاتھ پھیرنے لگے ماں کی ممتا کی طرح اس سے پیار کرنے لگے۔ باوجود اس قدر اذیت برداشت کرنے کے ذرہ برابر بھی اس پر کدورت اور غیظ و غضب نہ کیا بلکہ اس کی تکلیف کو دیکھ کر آپ کا دل رقیق ہو گیا اور آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔۔۔بکری سے کہنے لگے فرض کیا تجھ کو مجھ پر رحم نہیں آیا، اس لیے تو نے تھکایا اور پریشان کیا۔ لیکن تجھے اپنے اوپر رحم کیوں نہ آیا۔
اسی وقت ملائکہ سے حق تعالیٰ نے فرمایا کہ نبوت کے لیے حضرت
موسیٰ (علیہ السلام) زیبا ہیں امت کا غم کھانے اور ان کی طرف سے ایذاء رسانی کے تحمل کے لیے جس حوصلہ اور جس دل و جگر کی ضرورت ہوتی ہے وہ خوبی ان میں موجود ہے۔
نبوت سے قبل تقریبا" کئی نبیوں نے بکریاں چرائیں۔ اسکی حکمت یہ ہے کیونکہ بکریاں اکثر مختلف جانب بکھر جاتی ہیں۔ انکے جمع رکھنے اورنگرانی میں پریشانی ہوتی ہے۔ اس کام کے لیے دل و دماغ کا قابلِ برداشت ہونا ضروری ہوتا ہے۔
درس حیات: ۔۔
مخلوق خدا پر رحم کرنے سے دنیا اور آخرت میں سرفرازی عطا ہوتی ہے۔
حکایات رومی' مترجم اقراء فاطمہ: صفحہ22