شک کی دھوپ کی شدت ایسی،سب کُچھ ہی کُمہلائے ہے
مرے عکس کا سایہ تک بھی دیکھو پگھلا جائے ہے
آخر اب آسودہ ہو گی من کی بنجر دھرتی لوگو
خواہش کے تپتے صحرا پر آس کا بادل چھائے ہے
تب تب میرا دل خوں روئے اور سینے میں ہُوک اٹھے
جب جب آنکھ سے ٹپکا آنسو، مٹی میں مل جائے ہے
جب تک مُجھ سے دور رہے وہ من بھی ٹھیرا رہتا ہے
لیکن جب ملتا ہوں اُس سے وہ لمحہ تڑپائے ہے
لب سی لوں آنکھیں بند کرلوں سانس بھی لوں آہستہ سے
مُجھ پر یارو کیسے کیسے ظلم زمانہ ڈھائے ہے
کیسی مشرق اور مغرب کی گنگاجمنی ہے تہذیب
ٹی شرٹ جینز پہن کے گوری گھُونگھٹ میں شرمائے ہے
اُس سے ملنا بات خوُشی کی لیکن پھر تو بچھڑنا ہے
سوچ کے دل یہ پھر اُس سے ہی ملنے سے کترائے ہے
اک پل بھی جو یاد میں اُس کی گُذرے وہ ہی حاصل ہے
ورنہ یاں تو لمحہ لمحہ شیطاں ہی بہکائے ہے
اپنا اب سامان سمیٹو، وقت ہوا چاہے ہے پوُرا
کس اُلجھن میں پھنسے صبا جی۔ کاہے من گھبرائے ہے