umda![]()
نشہ اس موبائل کا (عطاءالحق قاسمی)
موبائل فون کی پاکستان آمد بہت تہلکہ خیز تھی۔ لوگ حیرت سے اس آلے کو دیکھتے تھے جس کے ساتھ نہ کوئی تار تھی اور نہ کوئی سوئچ وغیرہ لگانا پڑتا تھا، اس کا سائز اور اس کا بکس اتنا بڑا تھا کہ رئیس قسم کے ”صاحب موبائل فون“ اپنے ساتھ ایک ملازم رکھتے تھے جو یہ آلہ ان کے ساتھ ساتھ اٹھائے پھرتا تھا۔ میں نے پہلے دفعہ یہ آلہ ایک زمیندار کے پاس دیکھا تھا۔ اس کے ساتھ دو ملازم تھے، ایک نے موبائل فون اور دوسرے نے حقہ اٹھایا ہوا تھا۔ آہستہ آہستہ اس کا سائز کم ہوتا چلا گیا۔ اس کے ساتھ اس کی قیمت میں بھی کمی آئی، اس کے باوجود یہ قیمت اتaنی کم نہیں تھی کہ ہر ”ایرا غیرا“ خرید سکتا چنانچہ اس دور کی میری ایک ڈرامہ سریل ”شب دیگ“ میں ایک شخص باغ جناح میں جاگنگ کرتے ہوئے موبائل فون پر کسی سے بات کر رہا ہے۔
جس پر میرا ایک کردار ”انکل کیوں“ سیخ پا ہو کر اس سے مخاطب ہوتا ہے اور کہتا ہے ”تم لوگ اپنی امارت کا اظہار اب سیر گاہوں میں بھی کرنے لگے ہو، تمہارا بس چلے تو تم اپنی دس دس کینال کی کوٹھیوں کو بھی پہیے لگا کر باغ جناح میں لے آو اور انہیں جاگنگ کے وقت بھی اپنے ساتھ رکھو“ مگر اب یہی موبائل فون جو کبھی امارت کی نشانی تھی اور جسے کسی کے ہاتھ میں دیکھ کر ہمارے ہاتھوں کے طوطے اڑ جاتے تھے۔ اب اپنی ”ناقدری“ کا رونا روتا نظر آتا ہے
موبائل فون کی جو رہی سہی عزت تھی وہ بھی اس کے ”فقرے“ قسم کے خریداروں نے ختم کر دی ہے۔ وہ فون تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن اسے استعمال کرنے کے لئے اس میں ”بیلنس“ کا ہونا ضروری ہے چنانچہ مجھے اکثر اس مضمون کی ایک ایس ایم ایس وصول ہوتی ہے“ برادران اسلام، میں ایک ہسپتال میں بستر مرگ پر پڑا ہوں میرا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ آپ کو خدا اور اس کے رسول کا واسطہ ہے۔ مجھے دس روپے کا بیلنس بھیج دیں“ چنانچہ میں ہر بار اس کے نمبر پر فون کرتا ہوں تاکہ اس کی دوسری ضروریات کے بارے میں بھی دریافت کر سکوں
لیکن ”بستر مرگ“ سے دس روپے کا ”بیلنس“ مانگنے والا وہ شخص فون ہی نہیں اٹھاتا، دراصل اس طرح کے لوگ قناعت پسند ہوتے ہیں۔ انہوں نے آپ سے صرف دس روپے مانگے ہیں۔ وہ آپ بھیج سکتے ہیں تو بھیج دیں۔ انہیں فون کر کے کیوں پریشان کرتے ہیں۔ اگر ایک دن میں اللہ کے ایک سو نیک بندے بھی انہیں دس دس روپے بھیج دیں تو ایک ہزار روزانہ کے حساب سے تیس ہزار روپے ماہوار بنتے ہیں۔
میں نے ایک دفعہ لکھا تھا کہ مغرب سے جو ایجاد ہمارے ہاں آتی ہے وہ اپنے ساتھ ایسا کلچر بھی لاتی ہے اور میں نے اس کی کچھ مثالیں بھی پیش کی تھیں لیکن یہ واحد ایجاد ہے جو اپنے ساتھ اپنا کلچر نہیں لائی۔ مغربی ادب آداب کے تحت کسی کو فون کرتے وقت پوچھا جاتا ہے کہ آپ اس وقت مصروف تو نہیں ہیں، کیا آپ سہولت سے بات کر سکتے ہیں؟ دوسرا اگر گرین سگنل دے تو گفتگو کا آغاز کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ آپ شیو کر رہے ہیں، داڑھی کو ”وسمہ“ لگا رہے ہیں۔ بہت بری طرح ٹریفک میں پھنسے ہوئے ہیں۔ آپ کھانا کھا رہے ہیں اور لقمہ آپ کے حلق میں پھنسا ہوا ہے۔ آپ کو کھانسی کا دورہ پڑا ہوا ہے۔ آپ کسی تقریب میں بیٹھے ہیں یا اسی طرح کی کسی اور ”بھسوڑی“ میں پھنسے ہوئے ہیں کہ فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ آپ جیسے تیسے اس شریف آدمی کو بتاتے ہیں کہ میں اس وقت اس مشکل میں گرفتار ہوں۔ لہٰذا آپ سے بعد میں بات ہو گی، مگر وہ آپ کو ”سوری سوری“ بھی کہتا جائے گا اور اپنی بے ہودہ گفتگو کا سلسلہ بھی جاری رکھے گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ شراب، چرس، افہیم اور دوسری نشہ آور چیزوں کے علاوہ موبائل فون کے ”نشے“ کے خلاف مہم چلائی جائے کہ یہ نشہ بھی اب قوم کو اس کی قدروں سے دور اور بداخلاقی کے نزدیک لانے کا باعث بن رہا ہے۔
Last edited by Hidden words; 05-08-2012 at 12:32 AM.
تیری انگلیاں میرے جسم میںیونہی لمس بن کے گڑی رہیں
کف کوزه گر میری مان لےمجھے چاک سے نہ اتارنا
umda![]()
umda.../up
Yahi Dastoor-E-ulfat Hai,Nammi Ankhon,
Mein Le Kar Bhi,
Sabhi Se Kehna Parta Hai,K Mera Haal,
Behter Hai...!!
Hmmm par is nashe ka ilaj muskil hai
bohaat zabrdast aur haqeeqat pe mabni tehreer
is ka ilaj bohaat mushkil hay,kyun k aj kal k bachay bachay ko is ki lat lagi hui hay
umda sharing /up
![]()
ღ∞ ι ωιll αlωαуѕ ¢нσσѕє уσυ ∞ღ