چاند تارے میرے گرد رقص کرتے تھے
لکھا ہواہے، زمیں کا مدار، میں بھی تھا
جو میرے اشک تھے برگِ خزاں کی طرح گرے
برس کے کُھل گیا، ابرِ بہار میں بھی تھا
وہ آسمانی بلا لوٹ کے نہیں آئ
اِسی زمین پہ اُمیدوار میں بھی تھا
مجھے عزیز تھا ہر ڈوبتا ہوا منظر
غرض کہ ایک زوال آشکار میں بھی تھا
سپردگی میں نہ دیکھی تھی تمکنت ایسی
یہ رنج ہے کہ انا کا شکار میں بھی تھا
بہت سے لوگ تھے سقراط کار و عیسی نفس
اِسی ہجوم میں اک بیشمار میں بھی تھا
ہیں کہیں پہ کبھی شعلہ کار میں بھی تھا
شبِ سیاہ میں اک چشمِ مار میں بھی تھا
مجھے گناہ میں اپنا سُراغ ملتا ہے
وگرنہ پارسا و دین دار میں بھی تھا
مجھے سمجھنے کی کوشش نہ کی محبت نے
یہ اور بات ، زرا پیچ دار میں بھی تھا
سُنا ہے زندہ ہوں، حرص و حوس کا بندہ ہوں
ہزار پہلے محبت گُزار میں بھی تھا
بیل بوٹے بناۓ کہ دیکھتے رہے لوگ:
یہ ہاتھ کاٹ دیۓ، مینا کار میں بھی تھ