ن بادلوں میں روشن چہرہ ٹھہر گیا ہے
میری نظر میں کوئی جلوہ ٹھہر گیا ہے
اشکوں کےپانیوں میں اترا کسی کا چہرہ
بہتا ہوا اچانک دریا ٹھہر گیا ہے
آنکھوں کی سیپیاں تو خالی پڑی ہوئی ہیں
پلکوں پہ میری کیسے قطرہ ٹھہر گیا ہے
جس نےمجھے چھوا تھا،نشتر تھا وہ ہوا کا
زخم ایک میرےدل میں گہرا ٹھہر گیا ہے
نیلی رتوں میں کوئی آ کر ملا تھا شاید
اک زہر سا رگوں میں جس کا ٹھہر گیا ہے
کیسا عجب سفر ہے د ل کی مسافتوں کا
میں چل رہی ہوں لیکن رستہ ٹھہر گیا ہے
گردش رکی ہوئی ہےمیرے لہو کی نیناں
یا وقت کا کہیں پر پہیہ ٹھہر گیا ہے