ماتھے کی شکن بن کرغم دل کا عیاں ہوتا
سینہ پہ چھری پڑتی ۔۔ چہرہ پہ نشاں ہوتا
ہم آپ ہی باعث ہیں اس خانہ خرابی کے
اس کوچے میں جا بستے جنت میں مکاں ہوتا
یہ دل کی نگاہوں میں اک منظرِ حسرت ہے
پستا جو نہ اول ہی ۔۔ آشوبِ جہاں ہوتا
وہ قصۂ درد آگیں چپ کردیا تھا جس نے
تم سے نہ سنا جاتا ، مجھ سے نہ بیاں ہوتا
ائے شمع خموشی ہی اُس بزم میں اچھی تھی
دل جلتا تو لَو اُٹھتی ، بجھتا تو دھواں ہوتا
دو تند ہواوؤں پر ۔۔ بنیاد ہے طوفاں کی
یا تم نہ حسیں ہوتے یا میں نہ جواں ہوتا
چپ رہتے جومحشرمیں ائے آرزوؔاوراک دم
ہر زخم دہن بنتا ۔۔۔ ہر تیر زباں ہوتا