نام سے جس کے بدن میں جھرجھری آتی رہی
وقت یہ آیا کہ اس کی یاد بھی جاتی رہی
یوں خزاں کی چیونٹیاں چمٹیں زمیں کی کوکھ سے
فصلِ گل بے چین تھی راتوں کو چلاتی رہی
ایک نقطے پر ملے احساس کے سب زاویے
دائرہ میں درد کی تصویر لہراتی رہی
اس نظر کی دھوپ کا لکھنا پڑا ہے مرثیہ
عمر بھر جو منجمد سوچوں کو پگھلاتی رہی
منزلِ شہرِ تمنا دسترس میں تھی مگر
آرزو کو راستے میں نیند آ جاتی رہی
اس طرح جاڑا کوئی لپٹا رہا کہ عمر بھر
گرم پانی سے بھری بوتل کو سہلاتی رہی
٭٭٭
Buht khob abrdast
mera siggy koun uraa le gaya....