انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتی ہوئی ایک حساس تحریر� ہمارا دعویٰ ہے اسے پڑھ کر ایک لمحے آپ بھی سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے
شہنشاہ اعظم جب دنیا کو فتح کرنے کے ارادے سے نکلا تو اس کا گزر افریقہ کی ایک ایسی بستی سے ہوا جو دنیا کے ہنگاموں سے دور اور بڑی پرسکون تھی۔ یہاں کے باشندوں نے جنگ کا نام تک نہ سنا تھا اور وہ فاتح اور مفتوح کے معنی سے ناآشنا تھے� بستی کے باشندے شہنشاہ اعظم کو مہمان کی طرح ساتھ لے کر اپنے سردار کی جھونپڑی میں پہنچے۔ سردار نے اس کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا اور ہیرے جواہرات کے پھلوں اور سونے کی روٹیوں سے شہنشاہ کی تواضع کی۔
شہنشاہ نے حیرت سے سوال کیا۔ �کیا آپ کے علاقے میں ہیرے جواہرات اور سونا کھایا جاتا ہے؟�
�معزز شہنشاہ جہاں تک بہترین اور لذیذ ترین غذائوں کا سوال ہے تو وہ شہنشاہ کے اپنے ملک میں بھی میسر آتی ہوں گی لیکن آپ کو جس شے کی طمع نے یہاں تک پہنچایا ہے وہ یہی چیزیں ہیں اور اگر ہم غلط سمجھے ہیں تو کیا شہنشاہ اعظم ہمیں یہ بتائیں گے کہ وہ یہاں کس مقصد سے تشریف لائے ہیں؟�
شہنشاہ نے شرمندہ ہوکر جواب دیا۔ �مجھے آپ کی دولت سے کوئی دلچسپی نہیں� ہم تو آپ کے رسم و رواج کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں؟�
�بہت خوب!� سردار اس طرح ہنسا گویا اسے شہنشاہ کی بات کا یقین تو نہیں� لیکن احتراماً مانے لیتا ہے۔ فراخ دلی سے کہا۔ �آپ جب تک چاہیں رہیں۔�
ابھی یہ گفتگو جاری تھی کہ دو قبائلی فریق مدعی اور مدعا الیہ کی حیثیت سے اندر داخل ہوئے۔ سردار کی یہ جھونپڑی عدالت کا کام بھی دیتی تھی۔
مدعی نے کہا۔ �میں نے اس شخص سے زمین کا ایک ٹکڑا خریدا تھا� ہل چلانے کے دوران اس میں سے خزانہ برآمد ہوا میں نے یہ خزانہ اس شخص کو دینا چاہا لیکن یہ نہیں لیتا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ خزانہ میرا نہیں ہے کیوں کہ میں نے اس سے صرف زمین خریدی تھی۔�
مدعا الیہ نے جواب میں کہا۔ �میرا ضمیر ابھی زندہ ہے� میں یہ خزانہ اس سے کس طرح لے سکتا ہوں� میں نے تو اس کے ہاتھ زمین فروخت کردی تھی۔ اب اس میں سے جو کچھ بھی برآمد ہو یہ اس کی قسمت ہے اور یہی اس کا مالک ہے۔�
سردار نے فریقین کے سوال و جواب خود بھی ادا کیے۔ اس طرح وہ دونوں کو یہ یقین دلانا چاہتا تھا کہ اس نے دونوں کی روداد پوری توجہ سے سن لی ہے پھر کچھ غور کرنے کے بعد مدعی سے دریافت کیا۔ �تمہارا کوئی لڑکا ہے؟�
�ہاںہے!�
پھر مدعا الیہ سے پوچھا۔ �اور تمہاری کوئی لڑکی بھی ہے؟�
�جی ہاں....� مدعا الیہ نے اثبات میں گردن بھی ہلا دی۔
�تو تم ان دونوں کی شادی کرکے خزانہ ان کے حوالے کردو۔� اس فیصلے نے شہنشاہ کو حیران کردیا ۔ وہ فکر مند ہوکر کچھ سوچنے لگا۔
سردار نے متردد شہنشاہ سے دریافت کیا۔ �کیوں کیا میرے فیصلے سے آپ مطمئن نہیں ہیں؟�
�نہیں ایسی بات نہیں ہے۔� شہنشاہ نے جواب دیا۔ �لیکن تمہارا فیصلہ ہمارے نزدیک حیران کن ضرور ہے۔�
سردار نے سوال کیا۔ �اگر یہ مقدمہ آپ کے رو برو پیش ہوتا تو آپ کیا فیصلہ سناتے؟�
شہنشاہ نے اپنا سوچا سمجھا فیصلہ سنا دیا۔ �ہم فریقین کو حراست میں لے لیتے اور خزانہ ما بدولت کی ملکیت قرار دے کر شاہی خزانے میں داخل کردیا جاتا۔�
�بادشاہ کی ملکیت!� سردار نے حیرت سے پوچھا۔ �کیا آپ کے ملک میں سورج دکھائی دیتا ہے؟�
�جی ہاں کیوں نہیں؟�
�وہاں بارش بھی ہوتی ہے....�
�بالکل!�
�بہت خوب!� سردار حیران تھا۔ �لیکن ایک بات اور بتائیں کیا آپ کے ہاں جانور بھی پائے جاتے ہیں جو گھاس اور چارہ کھاتے ہیں؟�
�ہاں ایسے بے شمار جانور ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں۔�
�اوہ خوب� میں اب سمجھا۔� سردار نے یوں گردن ہلائی جیسے کوئی مشکل ترین بات اس کی سمجھ میں آگئی ہو۔ �تو اس ناانصافی کی سرزمین میں شاید ان ہی جانوروں کے طفیل سورج روشنی دے رہا ہے اور بارش کھیتوں کو سیراب کررہی ہے۔�