a42.png
رقم اوصاف رب کے کر رہا ہے
قلم کاغذ پہ سجدے کر رہا ہے
کرم کی ہو رہی ہے عام بارش
زمانہ اس کے چرچے کر رہا ہے
منور نور ہستی سے تو یا رب!
دلوں کے آبگینے کر رہا ہے
عطا کر کے لقب یٰسین و طہٰ
بلند انساں کے درجے کر رہا ہے
اسے بھی رزق تو دیتا ہے یا رب!
خدائی کے جو دعوے کر رہا ہے
جہنم سے ڈراتا ہے اگر تو
تو جنت کے بھی وعدے کر رہا ہے
ترا احساں کہ ہر طوفاں کی زد سے
مری کشتی کنارے کر رہا ہے
پرندہ بیٹھ کر ڈالی پہ ہر دم
ترا ہی ذکر جیسے کر رہا ہے
عطا ہو جائے علم و فن کی دولت
دعا صابرؔ یہ دل سے کر رہا ہے
***