a45.jpg
یہ مہر و ماہ منور غلام تیرے ہیں
تمام نور کے مظہر غلام تیرے ہیں
تغیرات زمانہ ہیں تری قدرت میں
یہ عرش و فرش کے منظر غلام تیرے ہیں
ترے غلام خدایا ہیں نغمہ بار پرند
تو نامہ بر یہ کبوتر غلام تیرے ہیں
ترے جہاں کے گداؤں کا ذکر کیا یا رب
زمانے بھر کے سکندر غلام تیرے ہیں
کروں نہ کیوں میں اطاعت تری مرے مولا
تمام پیر و پیمبر غلام تیرے ہیں
کہاں کہاں نہ غلامی میں ہے تری خلقت
یہ سیپ سیپ میں گوہر غلام تیرے ہیں
تری رضا پہ ہے موقوف فکر کی پرواز
تخیلات کے شہپر غلام تیرے ہیں
ترا غلام ترا نصرؔ کیوں نہ ہو یا رب
کہ ذی وقار سخنور غلام تیرے ہیں