a75.jpg
ہم نہیں کہتے ہمیں شان سلیمانی تو بخش
یہ بھی ہم کہتے نہیں تخت اور سلطانی تو بخش
کوئی منصب کوئی عہدہ اور نہ دیوانی تو بخش
ہے ضرورت جس کی اب وہ جذب ایمانی تو بخش
یا خدا پھر سے متاع درس قرآنی تو بخش
ہم مسلمانوں کو پھر سچی مسلمانی تو بخش
زندگانی کو خدایا خوئے انسانی تو بخش
ذہن و دل کو روح کو توحید افشانی تو بخش
صدق، اخلاص و وفا اور عشق لاثانی تو بخش
یعنی یاران نبیؐ کا وصف قربانی تو بخش
اقلیت کے فرق کا یا رب نہ ہو ہم کو خیال
دعوت حق کا ہمیں اندازِ فارانی تو بخش
ہم مٹا دیں پھر سے یا رب فتنۂ باطل تمام
خالدؓ ایوبیؓ جیسی ہم کو جولانی تو بخش
دور کر ملت سے یا رب مسلکی ناچاقیاں
اور دلوں کو جوڑ دے آپس میں اک جانی تو بخش
خار زاران وطن کو نیست کر نابود کر
اور یہاں کے ذرے ذرے کو گل افشانی تو بخش
پیروی کرنے لگے ہیں ہم سبھی اغیار کی
پھر سے یا رب ہم کو اپنی راہ نورانی تو بخش
ہر طرف سے بڑھ رہی ہیں ہر طرح کی مشکلیں
مہربانی ہم پہ فرما اور آسانی تو بخش
شعبۂ ہستی ہوا اپنا ہر اک تاریک تر
شعبۂ ہستی کو ہر اک اپنے تابانی تو بخش
اس مشینی دور کی جو بے حسی ہے ذوالجلال
بہر رحمت بے حسی کو ذوق روحانی تو بخش
جب دیا ہے دل تو درد دل بھی کر ہم کو عطا
یعنی ہم کو درد مندی اور درمانی تو بخش
جس میں تو ہی تو ہو رب دل کو وہ آئینہ بنا
اور بصیرت کو ہماری جلوہ سامانی تو بخش
میں تری شان کریمی کے تصدق رب مرے
جس سے ملت کا بھلا ہو وہ سخندانی تو بخش
شاعر ی میں نعت گوئی ہو مری پہچان خاص
نعت گوئی کو مری ایسی فراوانی تو بخش
بندگی کی دے سدا توفیق رب ذوالجلال
اور نجمیؔ کو ترے حمد و ثنا خوانی تو بخش