a89.jpg
ذرہ ذرہ کو ثریا کا تو ہمسر کر دے
قد سے محروم ہیں جو ان کو قد آور کر دے
تو اگر چاہے تو خاروں کو گل تر کر دے
ایک ہی پھول سے عالم کو معطر کر دے
تیری عظمت تری قدرت سے نہیں کچھ بھی بعید
آگ کو پھول تو قطرہ کو سمندر کر دے
کمتری کا اسے احساس نہ ہونے پائے
میرے بھائی کو مرے قد کے برابر کر دے
خشک سالی مرے ہونٹوں کی نہیں جاتی ہے
اب تو پیدا مرے ہونٹوں پہ سمندر کر دے
تیرگی بڑھتی ہی جاتی ہے مرے سینے کی
نور ایماں سے اسے آج منور کر دے
بے پری مجھ کو مدینہ نہیں جانے دیتی
بازوؤں کو تو مرے حاصل شہ پر کر دے
مجھ گنہ گار سیہ کار کو اب رب قدیر
باغ جنت میں عطا چھوٹا سا اک گھر کر دے
مالک کون و مکاں سن لے دعائے عبرتؔ
اس کے بگڑے ہوئے حالات کو بہتر کر دے