a116.jpg
عظمتوں کا نشاں ہے تیرا نام
اک حسیں داستاں ہے تیرا نام
مجھ کو تجھ سے شکایتیں کیا کیا
پھر بھی ورد زباں ہے تیرا نام
دل میں یہ جذبے ہی سہی لیکن
روح میں بھی رواں ہے تیرا نام
میری را ہوں میں روشنی اس سے
سر بہ سر کہکشاں ہے تیرا نام
زندگی حادثوں کی دھوپ کڑی
دھوپ میں سائباں ہے تیرا نام
کتنی وسعت ہے اس کے معنوں میں
کس قدر بیکراں ہے تیرا نام
دل نشیں داستاں ہے یہ دنیا
حاصل داستاں ہے تیرا نام
تیری عظمت سے انحراف جنہیں
ان پہ بھی مہرباں ہے تیرا نام
ہر زباں پر ہیں تذکرے تیرے
ہر زباں پر رواں ہے تیرا نام
صرف اس کو ثبات حاصل ہے
دہر میں جاوداں ہے تیرا نام
زندگی بخش اس کو شیرینی
یعنی اردو زباں ہے تیرا نام
عرشؔ سے کوئی صرف یہ پوچھے
شاعر ی میں کہاں ہے تیرا نام
عرش صہبائی (جموں )