a159.jpg
میں تو خود ان کے درکا گدا ہوں اپنے آقا کو میں نذر کیا دوں
اب تو آنکھوں میں کچھ بھی نہیں ہے ورنہ قدموں میں آنکھیں بچھادوں
آنے والی ہے ان کی سواری پھول نعتوں کے گھر گھر سجادوں
میرے گھر میں اندھیرا بہت ہے اپنی پلکوں پہ شمعیں جلادوں
میری جھولی میں کچھ نہیں ہے میرا سرمایہ ہے تو یہی ہے
اپنی آنکھوں کی چاندی بہادوں اپنے ماتھے کا سونا لٹادوں
بے نگاہی پہ میری نہ جائیں دیدہ در میرے نزدیک آئیں
میں یہیں سے مدینہ دکھادوں دیکھنے کا سلیقہ سکھادوں
روضہ پاک پیشِ نظر ہے سامنے میرے آقا کا در ہے
مجھ کو کیا کچھ نظر آرہا ہے تم کو لفظوں میں کیسے بتادوں
میرے آنسو بہت قیمتی ہیں ان سے وابستہ ہیں ان کی یادیں
ان کی منزل ہے خاک مدینہ یہ گہر یوں ہی کیسے لٹادوں
مجھ کو اقبال نسبت ہے ان سے جن کا ہر لفظ جانِ سخن ہے
میں جہاں نعت اپنی سنادوں ساری محفل کی محفل جگادوں