آنکھوں میں چبھ رہے ہیں در و بام کے چراغ
جب دل ہی بجھ گیا ہو کس کام کے چراغ
کیا شام تھی کہ جب ترے آنے کی آس تھی
اب تک جلا رہے ہیں ترے نام کے چراغ
شاید کبھی یہ عرصۂ یک شب نہ کٹ سکے
تو صبح کی ہوا ہے تو ہم شام کے چراغ
اِس تیرگی میں لغزشِ پا بھی ہے خود کشی
اے رہ نوردِ شوق ذرا تھام کے چراغ
ہم کیا بجھے کہ جاتی رہی یادِ رفتگاں
شاید ہمیں تھے گردشِ ایّام کے چراغ
ہم درخورِ ہوائے ستم بھی نہیں فرازؔ
جیسے مزار پر کسی گمنام کے چراغ