اب فرصت ہے نہ احساس ہے غم سے اپنے
ورنہ ہم روز ہی ملتے تھے صنم سے اپنے
دل نہ مانا کہ کسی اور کے راستے پہ چلیں
لاکھ گمراہ ہوئے نقشِ قدم سے اپنے
جی چکے ہم جو یہی شوق کی رسوائی ہے
تم سے بیگانے ہوئے جاتے ہیں ہم سے اپنے
ہم نہیں پھر بھی تو آباد ہے محفل اُن کی
ہم سمجھتے تھے کہ رونق ہے تو دم سے اپنے
میرے دامن کے مقدر میں ہے خالی رہنا
آپ شرمندہ نہ ہوں دستِ کرم سے اپنے
رہ چکے مرگِ تمنا پہ بھی اک عمر فرازؔ
اب جو زندہ ہیں تو شعروں کے بھرم سے اپنے
٭٭٭