میں پوچھتا ہوں کہ یہ کاروبار کس کا ہے
یہ دل مرا ہے مگر اختیار کس کا ہے
یہ کس کی راہ میں بیٹھے ہوئے ہو فرحت جی
یہ تو مدتوں سے تمھیں انتظار کس کا ہے
تڑپ تڑپ کے یہ جب سرد ہونے لگتا ہے
تو پوچھتے ہیں دل بے قرار کس کا ہے
یہ بات طے ہی نہیں ہوسکی ہے آج تلک
ہمارے دونوں میں آخر فرار کس کا ہے
نہ جانے کس نے میرے منظروں کو دھندلایا
نہ جانے شہر پہ چھایا غبار کس کا ہے
***