کوئی بھیڑ جیسی یہ بھیڑ ہے کسی دوسرے کا پتا نہیں
یہ تو برق و بار کا شہر ہے کوئی رہنے بسنے کی جا نہیں
مرے شہر میں تو ابھی تلک انہی یکوں تانگوں کا دور ہے
مرے ذہن میں جو مکان ہیں وہاں اتنی آہ و بکا نہیں
ترے ہم خیال کدھر گئے ؟کہیں مر گئے کہ بکھر گئے
میں ضرور اس سے یہ پوچھتا کوئی کوچہ گرد ملا نہیں
یہ احاطہ جس میں کھڑا ہے تو یہاں اور بھی تو درخت تھے
ترے سارے ساتھی تو کٹ چکے ،تیرا سودا کیسے ہوا نہیں
یہ نہیں کہ حسن فضا نہ تھا میں خود اپنے بس میں رہا نہ تھا
تجھے کنج باغ میں کر کوئی پھول اچھا لگا نہیں
ذرا پہلے خود کو ٹٹولتے تو خلاف عقل نہ بولتے
وہ گلہ گذار ہیں مجھ سے کیوں،مجھے جن سے کوئی گلہ نہیں
***