پھر رات بھر کیا جاگنا جب دل کو وحشت ہی نہیں
چاندی کے فوارے لگے ہیں اس کے قصر ناز میں
افسردہ سی رہتی ہے وہ تسکین و راحت ہی نہیں
باہر فصیل قصر ہے ،مخلوق ہے کس حال میں؟
یہ جاننے، محسوس کرنے کی ضرورت ہی نہیں
چھت جس نے ہم سے چھین لی ،جلتی جھلستی دھوپ میں
کیا صلح ہم اس سے کریں جس کو ندامت ہی نہیں
یہ جھوٹے سچے فیصلوں پر کس قدر مسرور ہیں
یاد ان کو اک سب سے بڑی ،رب کی عدالت ہی نہیں
کچھ سنگ مرمر کے سے بت پہلی ہی صف میں سج گئے
پھر کیا کرے شاعر جہاں حسن سماعت ہی نہیں
آٹو گراف اس نے لیا پھر زیر لب پوچھا گیا
کیا چارہ گر کی اب مرے شاعر کو حاجت ہی نہیں
***