ٹوٹے ہوئے ستار کے سب تار کس گئے
بارش ہوئی کہ درد کے نغمے برس گئے
کیسی سیاہ رات تھی دہلیز پر کھڑی
وہ مسکرا دیے تو اجالے برس گئے
شادابیوں کے دور کا انجام یہ ہوا
اب کے تو بوند بوند کو دریا ترس گئے
اب خاک اڑ رہی ہے گلابوں کے شہر میں
وہ لو چلی ہے اب کے کہ پتھر جھلس گئے
گھر سے خلوص کیا گیا سب کچھ چلا گیا
باتوں میں رس نہیں رہا ہاتھوں کے جس گئے
کچھ رشک مہر و ماہ یہاں آئے تھے کبھی
کوئی تو کچھ بتائے کہاں جا کے بس گئے
***