طیبہ کی طرف احباب چلے پھر یاد مدینہ آئی ہے
پھر گنبد خضرا کی سبزی آنکھوں میں مری لہرائی ہے
اے قافلے والو شام و سحر مسعود ہو یہ طیبہ کا سفر
پہنچا دو وہاں تک یہ بھی خبر پھر دید کی حسرت چھائی ہے
یاد آتی ہے رہ رہ کر وہ فضا وہ داخلہ باب رحمت کا
دن رات یہاں محسوس ہوا حضرت کی سواری آئی ہے
اللہ رے روضے کا عالم افلاک کا سر ہے اس جا خم
ہے عرش بھی جس کے زیرِ قدم اس نور کی یہ چھانی ہے
آقائے دو عالم کا مسکن قرباں ہیں جس پر جان و تن
فردوس نے یہ نزہت یہ پھبن صدقے میں اسی کے پائی ہے
کس طرح کہے دکھڑا سارا ہے مہر بلب غم کا مارا
سرکار پہ روشن ہے سب کچھ جو دل کی مرے گہرائی ہے
مانا کہ وہ غرقِ عصیاں تھا بے ہوشؔ پہ فضل یزداں تھا
محبوبِ خدا کا ثنا خواں تھا یہ بات خدا کو بھائی ہے
٭٭
wahhh nice jazak Allah khair
keep sharing
mera siggy koun uraa le gaya....