فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے او ر وہ میرا نہ تھا
وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو
میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا
رات بھر پچھلی ہی آہٹ کان میں آتی رہی
جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا
میں تیری صورت لئے سارے زمانے میں پھرا
ساری دنیا میں مگر کوئی تیرے جیسا نہ تھا
یہ بھی سب ویرانیاں اس کے جدا ہونے سے تھیں
آنکھ دھندلائی ہوئی تھی شہر دھندلایا نہ تھا
سینکڑوں طوفان لفظوں میں دبے تھے زیر لب
ایک پتھر تھا خموشی کا کہ جو ہٹتا نہ تھا
محفلِ اہلِ و فا میں ہر طرح کے لوگ تھے
یا تیرے جیسا نہیں تھا یا میرے جیسا نہ تھا
آج اس نے در د بھی اپنے علیحدہ کر لیے
آج میں رویا تو میرے ساتھ و ہ رویا نہ تھا
یاد کر کے او ر بھی تکلیف ہوتی تھی عدؔیم
بھول جانے کے سوا اب کوئی چارہ نہ تھا
مصلحت نے اجنبی ہم کو بنایا تھا عدؔیم
ورنہ کب اک دوسرے کو ہم نے پہچانا نہ تھا