پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
دل، جگر تشنۂ فریاد آیادم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
پھر ترا وقتِ سفر یاد آیاپھر ترے کوچے کو جاتا ہے خیالدلِ گم گشتہ، مگر، یاد آیاکوئی ویرانی سی ویرانی ہے !دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیاہم نے مجنوں پہ لڑکپن میں ، اسدؔسنگ اُٹھایا تھا کہ سر یاد آیا