سوئے کہاں تھے آنکھوں نے تکیے بھگوئے تھے
ہم بھی کبھی کسی کے لیے خوب روئے تھے
انگنائی میں کھڑے ہوئے بیری کے پیڑ سے
وہ لوگ چلتے وقت گلے مل کے روئے تھے
ہر سال زرد پھولوں کا ایک قافلہ رکا
اس نے جہاں پہ دھول اٹے پاوں دھوئے تھے
اس حادثے سے میرا تعلق نہیں کوئی
میلے میں ایک سال کئی بچے کھوئے تھے
آنکھوں کی کشتیوں میں سفر کر رہے ہیں وہ
جن دوستوں نے دل کے سفینے ڈبوئے تھے
کل رات میں تھا میرے علاوہ کوئی نہ تھا
شیطان مر گیا تھا فرشتے بھی سوئے تھے
***