اخلاق سے روشن ہے ، کردار سے روشن ہے
یہ سارا جہاں میرے ، سرکار سے روشن ہے
جس دل میں محبت ہے ، سرکارِ دو عالم کی
وہ دل مرے آقا کے ، انوار سے روشن ہے
وہ دیکھو ملاتا ہے ، نظریں مہ و اختر سے
جو ذرہ شہِ دیں کی ، پیزار سے روشن ہے
جتنے بھی ہیں پروانے ، سب اس کے ہیں دیوانے
جو شمع مدینے میں ، سرکار سے روشن ہے
پلتا ہوں یقیناً میں ، سرکار کے ٹکڑوں پر
گھر بار مرا ان کے ، گھر بار سے روشن ہے
اسلام کا سورج تو ، اخلاق سے چمکا ہے
یہ کس نے کہا ناؔظم ، تلوار سے روشن ہے
کلام: ناظؔم بریلوی (ہند)