اس نے پوچھا تھا وفا کی بابت
درد بڑھتا گیا ، بڑھتا ہی گیا
کچھ کیا شمع نے اور پروانہ
رقص کرتا گیا ، کرتا ہی گیا
اس نے پوچھا کہ مرے دل میں ہے کیا ؟
دل جو دھڑکا تو ، دھڑکتا ہی گیا
چھین کر نیند وہ بولا، کیونکر ؟
خواب مرتا گیا ، مرتا ہی گیا
مِرے اشکوں کا سبب مت پوچھو
جام چھلکا تو ، چھلکتا ہی گیا
***