غنیم سے
مرے تن کے زخم نہ گِن ابھی
مری آنکھ میں ابھی نور ہے
مرے بازوؤں پہ نگاہ کر
جو غرور تھا، وہ غرور ہے
ابھی تازہ دم ہے مرا فرس
نئے معرکوں پہ تُلا ہوا
ابھی رزم گاہ کے درمیاں
ہے مرا نشان کھلا ہوا
تری چشمِ بد سے رہیں نہاں
وہ تہیں جو ہیں مری ذات کی
مجھے دیکھ قبضۂ تیغ پر
ہے گرفت ابھی مرے ہاتھ کی
وہ جو دشتِ جاں کو چمن کرے
یہ شرف تو میرے لہو کا ہے
مجھے زندگی سے عزیز تر
یہ جو کھیل تیغ و گلو کا ہے
تجھے مان جوشن و گُرز پر
مرا حرفِ حق مری ڈھال ہے
ترا جور و ظلم بلا سہی
مرا حوصلہ بھی کمال ہے
میں اسی قبیلے کا فرد ہوں
جسے ناز صدق و یقیں پہ ہے
یہی نامہ بر ہے بہار کا
جو گلاب میری جبیں پہ ہے
٭٭٭