یہ دکھ آساں نہ تھے جاناں
برس یا دو برس کی قیدِ تنہائی بھی گر ہوتی
تو پھر بھی زندگی لاچار ہو جاتی
محبت بے وفا اور دوستی بیزار ہو جاتی
مگر تم نے تو سارے ہجر کے بیمار موسم
بیکلی، بیچارگی اور کرب کے
بوسیدہ بستر پر گزارے ہیں
سرِ بالیں
کسی کے ہاتھ میں چارہ گری کی شمعِ لرزاں
اور نہ آوازوں کے روشن داں
نشاطِ خواب کیا
جب وار ہے دروازۂ مژگاں
یہ دکھ آساں نہ تھے جاناں
پرانی داستانوں میں تو ہوتا ہے
کہ کوئی شاہزادی یا کوئی نیلم پری
دیووں یا آسیبوں کی قیدی
اپنے آدم زاد دیوانے کی رہ تکتے
شبیہہِ سنگ ہو جاتی
مگر وہ داستانیں تھیں
پھر ان میں بھی تو آخر کار
اس کا با وفا ساونت شہزادہ
سمندر پار کرتا
وار کرتا
کوہساروں کے جسد مسمار کرتا
ان طلسماتی حصاروں سے اسے آزاد کر کے
ساتھ لے جاتا
مگر تُو داستانوں کا کوئی کردار
یا پارینہ قصوں کا کوئی حصہ نہ تھی
تُو نے تو خود آزارگی اپنے تئیں ہی منتخب کی تھی
کئی دن پھر کئی دن پھر نئے دن
بدن کا دوزخی سیّال ایندھن
اور لہو کا آتشیں لاوا
رگوں میں دوڑنے پھرنے کا قائل نہیں رہتا
تعلق کی چٹانیں ریت بن جاتی ہیں
دلداری کے چشمے خشک ہو جاتے ہیں
ارماں آنسوؤں کا رزق بن جاتے ہیں
اور دل ایک ہی صورت پہ پھر مائل نہیں رہتا
وفاداری بشرطِ استواری کا چلن
پھر عاشقی کی راہ میں حائل نہیں رہتا
بدل جاتے ہیں خال و خد
پگھل جاتے ہیں جسم و جاں
یہ دکھ آساں نہیں جاناں
٭٭٭