کیا رَشک عَرشیوں کی مجھے پاے گاہ کا
زَائِر ہوں آستانِ حَبِیبِ اِلٰہ کا
ہوں میں غُلام ایسی فَلَک بارگاہ کا
جس کے گدا کورُتبہ ملے بادشاہ کا
عمرِ دوام دی گئی اِس واسطے کہ خِضر
رَہبر رہے مُدام ، مدینے کی راہ کا
اُس در پہ جَبْہَہ سا ہوں کہ آکر مری طرح
ذَرُّوں میں امتیاز نہ ہو مہر و ماہ کا
سمجھا ہوا ہے کُنگرۂ عرش تُو جسے
غافل! یہ ایک گوشہ ہے اُس کی کُلَاہ کا
دیں داغِ اِنْفِعال تِرے ساجدینِ در
خورشید کو جوداغ دِکھائیں جِبَاہ کا
ہے حامِلانِ عرش سے رُتبہ بَڑھا ہوا
خُدَّامِ بارگاہِ رِسَالَت پَناہ کا
خَتْمِ رُسُل ، شَفیعِ اُمَم ، سرورِ دَوکَون
رکھ پاس حَشْر میں مری شرمِ گناہ کا
آزار دے نہ ظُلمتِ کُنْجِ لَحد مجھے
جلوہ اِدھر بھی ایک ، کرم کی نگاہ کا !
اُس سے خلاف سالکِ بے راہ رو نہ چل
رُسْتَم ہے مُستقیمِ شریعت کی راہ کا
کلیات سالک ، ص 135 ، 136 ، مجلس ترقئ ادب لاہور ، سال اشاعت 1966ء )
انتخاب:لقمان شاہد