لفظ یورپ کا پس منظر
محمد ریاض
کسی دور میں یہ بحث ہوا کرتی تھی کہ دنیا میں جغرافیائی طور پر سات براعظم ہیں یا چھ۔’’یورپ‘‘ کا تصور اس زمانے سے بھی قبل کا ہے۔ جو لوگ چھ براعظم ہونے پر اصرار کرتے تھے، ان کے خیال میں ایشیا اور یورپ ایک ہی براعظم ہے۔ قدیم یونانیوں نے دنیا کو تین بڑے حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ یورپ، ایشیا اور لیبیا۔ لیبیا سے ان کی مراد افریقہ کا شمالی حصہ تھی۔ بطلیموس نے دوسری صدی میں اپنے دنیا کے نقشے میں انہیں تین حصوں کو برتا۔ لہٰذا یورپ کا تصور بہت پرانا ہے۔ لیکن نام ’’یورپ‘‘ آیا کہاں سے؟ اس بارے میں مختلف نظریات ہیں۔ کچھ ماہرین لسانیات سے مدد لیتے ہیں۔ ان کے خیال میں قدیم یونانی زبان میں ’’یوریس‘‘ کے معنی کھلے یا وسیع کے ہیں اور ’’اوپس‘‘ کے معنی چہرہ یا آنکھ کے ہیں۔ دوسرے معنوں میں وسیع نظارہ۔ ان کے مطابق یورپ انہی دو الفاظ کا مرکب ہے اور اس کی وجہ یورپ کے وہ وسیع ساحل ہیں جو یونانی بحری جہازوں سے نظر آتے تھے۔ دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ نام یورپ کی اصل سامی اکادی زبان میں تلاش کرنی چاہیے جو قدیم میسوپوٹامیا میں بولی جاتی تھی۔ اکادی میں ’’یوریبو‘‘ کا مطلب ہے ’’غروبِ آفتاب‘‘۔ وہاں سے سورج یورپ کی جانب غروب ہوتا تھا۔ نیز ان کا کہنا ہے کہ اکادی لفظ ’’اسو‘‘ کے معنی طلوعِ آفتاب ہیں، جس سے ’’ایشیا‘‘ کا لفظ اخذ ہوا۔ میسوپوٹامیا والوں کی نظر سے دیکھا جائے تو طلوع آفتاب کا علاقہ ایشیا ہے۔ اس کے برخلاف ایک نظریہ ’’یورپ‘‘ کو اساطیری کہانیوں میں تلاش کرتا ہے، بالخصوص جن کا تعلق دیوی ’’یوروپا‘‘ سے ہے۔ تمام نظریات کچھ ٹھوس بنیادیں ضرور رکھتے ہیں لیکن یقینی طور پر کوئی نہیں جانتا کہ لفظ یورپ کہاں سے آیا۔