تریاق
جب تیری اداس انکھڑیوں میں
پل بھر کو چمک اٹھے تھے آنسو
کیا کیا نہ گزر گئی تھی دل پر!
جب میرے لیے ملول تھی تو
کہنے کو وہ زندگی کا لمحہ
پیمانِ وفا سے کم نہیں تھا
ماضی کی طویل تلخیوں کا!
جیسے مجھے کوئی غم نہیں تھا
تو! میرے لیے! اداس اتنی
کیا تھا یہ اگر کرم نہیں تھا
تو آج بھی میرے سامنے
آنکھوں میں اداسیاں نہ آنسو
ایک طنز ہے تیری ہر ادا میں
چبھتی ہے ترے بدن کی خوشبو
یا اب مرے زخم بھر چکے ہیں
یا سب مرا زہر پی چکی تُو
٭٭٭