شہدائے جنگِ آزادی ١۸۵۷ء کے نام
تم نے جس دن کے لیے اپنے جگر چاک کیے
سو برس بعد سہی دن تو وہ آیا آخر
تم نے جس دشتِ تمنا کو لہو سے سینچا
ہم نے اُس کو گل و گلزار بنایا آخر
نسل در نسل رہی جہدِ مسلسل کی تڑپ
ایک اک بُوند نے طوفان اٹھایا آخر
تم نے اک ضرب لگائی تھی حصارِ شب پر
ہم نے ہر ظلم کی دیوار کو ڈھایا آخر
وقت تاریک خرابوں کا وہ عفریت ہے جو
ہر گھڑی تازہ چراغوں کا لہو پیتا ہے
زلفِ آزادی کے ہر تار سے دستِ ایّام
حریت کیش جوانوں کے کفن سیتا ہے
تم سے جس دورِ المناک کا آغاز ہُوا
ہم پہ وہ عہدِ ستم ایک صدی بیتا ہے
تم نے جو جنگ لڑی ننگِ وطن کی خاطر
مانا اس جنگ میں تم ہارے عدو جیتا ہے
لیکن اے جذبِ مقدس کے شہیدانِ عظیم
کل کی ہار اپنے لیے جیت کی تمہید بنی
ہم صلیبوں پہ چڑھے زندہ گڑے پھر بھی بڑھے
وادیِ مرگ بھی منزل گہہِ امید بنی
ہاتھ کٹتے رہے پر مشعلیں تابندہ رہیں
رسم جو تم سے چلی باعثِ تقلید بنی
شب کے سفّاک خداؤں کو خبر ہو کہ نہ ہو
جو کرن قتل ہوئی شعلۂ خورشید بنی
٭٭٭