من چلے کا سودا از بابا جی اشفاق احمد صاحب سے اقتباس
ارشاد : حضور اس کی شکل بلکل آپ جیسی تھی ،،
محمّد حسین: ہاں تو پھر ؟
ارشاد : تو ،،، میں سمجھ نہیں پا رہا حضرت ! ڈاکو بھی وہی ،،، اور بچانے والا بھی وہی ،
محمّد حسین: پھر کہتے ہو سر ناوا لکھ دو ،،، مہر بھی لگا دو ،،، رجسٹری بھی کر دو ،، اوہ بھائی مارنے والا وہی ہے جو زندگی دینے والا ہے ،،، وہی رحیم کریم ہے اور وہی قہار جبار ہے ،، وہی کشتی ہے اور وہی بھنور ہے ،، تم جیسے احمق ساری عمر کانٹے چننے میں بسر کرتے ہیں اور کانٹے کو ہی زندگی سمجھتے ہیں ،، گلاب تک پونچ ہی نہیں پاتے ،، کبھی گلاب بھی کانٹے سے جدا ہوا ہے ؟ کبھی رات بھی دن سے بچھڑی ہے ،،،، ؟
ارشاد : سمجھ گیا سرکار سمجھ گیا ،،
محمّد حسین: کچھ نہیں سمجھے اور نہ سمجھ سکھو گے ساری عمر ،،، تم ابھی رنگ تلاش کرتے ہو حالانکہ تجلّی کا کوئی رنگ نہیں ،،، سارے رنگوں کے مجموہے کا نام ہی تجلّی ہے