پاس رہ کر بھی بہت دور ہیں دوست
اپنے حالات سے مجبور ہیں دوست
ترکِ الفت بھی نہیں کر سکتے
ساتھ دینے سے بھی معذور ہیں دوست
گفتگو کے لئے عنواں بھی نہیں
بات کرنے پہ بھی مجبور ہیں دوست
یہ چراغ اپنے لیے رہنے دو
تیر راتیں بھی تو بے نور ہیں دوست
سبھی پژ مردہ ہیں محفل میں شکیبؔ
میں پریشان ہوں رنجور ہیں دوست