حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اخلاق
حضور اکرم ۖ عظیم اخلاق کے مالک تھے آپ سراپا رحمت عالمگیر تھے اس لیے آپ ۖ کے دل میں نفرت و عداوت کا فقدان تھا۔ابوسفیان کفار مکہ کے سردار تھے اور اسلام دشمنی میں سرگرم عمل رہتے تھے۔ اسلام کے خلاف جتنی جنگیں لڑی گئیں ابوسفیان نے ان جنگوں میںہر طرح سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ملت اسلامیہ کے لیے ابوسفیان بدترین اور خطرناک دشمن تھا۔ لیکن جب مکہ فتح ہو چکا اور ابوسفیان کو مفتوح کی حیثیت سے حضور ۖ کے دربار میں پیش کیا گیا تو حضرت عمر فاروق اسے دیکھ کر غضب ناک ہو گئے اور اسے قتل کرنے کو تھے کہ دریائے رحمت موجزن ہو گیا اور آپ ۖ نے عمر فاروق کو روک دیا ۔ابوسفیان کو معاف کرکے شہر میں اعلان کروا دیا کہ جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا اسے امان دے دی جائے گی۔ اسلام اور اپنی جان کے دشمن کے ساتھ یہ حسن سلوک فقط رحمت اللعالمین ہی کا حصہ تھا۔ آپ ۖ کی اس رحمت کو دیکھ کر اسلام کفار کے بڑے بڑے سردار اور اسلام کے دشمن اور باغی جوق درجوق حلقہ اسلام میں داخل ہوتے گئے۔
اسلام نام ہے امن و سلامتی کا ' اور فقط امن و سلامتی کے ساتھ ہی پھیلتا ہے ۔ یہ قوت سے نہیں پھیلتا ' بلکہ محبت سے پھیلتا ہے ۔اس کی تبلیغ کا اصل راز محبت و شفقت میں مضمر ہے۔ خود قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ دلوں کو تسخیر رحمت و محبت سے ہوتی ہے ' جبر و تشدد یا خوف سے نہیں ہوتی۔ درحقیقت محبت ہی دلوں کی حکمران ہے ۔محبت و شفقت کی جو مثال رسول اکرم ۖ نے قائم کی تاریخ عالم ایسی مثال نہ تو پیش کر سکی ہے اور نہ پیش کر سکے گی۔ یہ خوبی صرف فخر دو عالم رحمة اللعالمین ہی کا حصہ تھی جو ہرکسی سے محبت و رحمت سے پیش آتے تھے اور ان ہی کی سیرت طیبہ تمام بنی نوع انسان کے لیے تقلید کا اعلیٰ کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے جسے خداوند عالم نے یو ں بیان فرمایا ہے :
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنہ
ترجمہ۔ بے شک تمہارے لیے رسول خدا کی عملی زندگی قابل تقلید نمونہ ہے۔
آپۖ بلند و عظیم عزائم رکھتے تھے ۔ آپ ۖ کے معمولی عزائم بھی زمانے بھر سے بلند تھے۔ آپ ۖ کے جودوکرم کی شان یہ ہے کہ اگر اس کادسواں حصہ بھی خشکی پر عام ہو جائے تو وہ سخاوت اور فیضان میں سمندر سے بڑھ جائے