یہ فیضِ عام شیوہ کہاں تھا نسیم کا
آخر غلام ہوں میں تمہارا قدیم کا
پیمانِ ترکِ جاہ لیا پیرِ دیر نے
پیمانہ دے کے بادہء عنبر شمیم کا
یوں تصور میں برستی ہیں پرانی یادیں
جیسے برسات میں رم جھم کا سماں ہوتا ھے
یہ فیضِ عام شیوہ کہاں تھا نسیم کا
آخر غلام ہوں میں تمہارا قدیم کا
پیمانِ ترکِ جاہ لیا پیرِ دیر نے
پیمانہ دے کے بادہء عنبر شمیم کا
آج تجھے کیوں چپ سی لگی ھے
کچھ تو بتا کیا بات ھوئی ھے
یار بھی راہ کی دیوار سمجھتے ہیں مجھے
میں سمجھتا تھا میرے یار سمجھتے ہیں مجھے
میں تو یوں چُپ ہوں کہ اندر سے بہت خالی ہوں
اور سب لوگ پُر اسرار سمجھتے ہیں مجھے
یہاں خوابوں کی ارزانی بہت ہے
اس آبادی میں ویرانی بہت ہے
سروں پر خواب اوڑھے جا رہے ہیں
یہاں سورج کی تابانی بہت ہے
یہ جو پتھروں میں چھپی ہوئی ہے شبیہ، یہ بھی کمال ہے
وہ جو آئینے میں ہمک رہا ہے وہ معجزہ بھی تو دیکھتے
جو ہوا کے رخ پہ کھلے ہوئے ہیں وہ بادباں تو نظر میں ہیں
وہ جو موج خوں سے الجھ رہا ہے وہ حوصلہ بھی تو دیکھتے
یہ خیال کیسا تھا جو روح تک میں اتر جائے
یہ وجود کیسا وجود تھا جسے اب تک میں نہ سمجھ سکا
نہیں کہ تجھ سے بچھڑ کے دنیا اجڑ گئی ہو
یہی کہ دِل بُجھ گیا ذرا سا ملال گزرا
میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا لیکن
تیرے بچھڑنے کا سانحہ بھی کمال گزرا
یہ تو دیکھو کہ تمہیں لوٹ لیا ہے اس نے
اک تبسم پہ خریدار کے گن گاتے ہو
وہ تو کھویا ہے کہیں باطن میں
ہم جسے اپنے بروں ڈھونڈتے ہیں
ہم کہ ترسی ہوئی شریانیں ہیں
اور اک قطرہ خوں ڈھونڈتے ہیں