دل کو کیسی بے چینی ہے
کیا جنگل میں آگ لگی ہے
کیا کیا نہ تجھ کو میں نے ستایا
اب چپ ہوں، جب سزا ملی ہے
تیرے ہاتھوں میں سونا ہے
میرے ہاتھوں میں مٹی ہے
ہاتھوں پر ترے ہونٹ نہیں ہیں
خوابوں والی رات ڈھلی ہے
کھلیانوں میں رکھ دو یادیں
ہوا یہ فصل جلا دیتی ہے
تجھ سے کیا کیا گلے کئے تھے
بدلے میں بس دعا ملی ہے
فصلِ گل رستے میں ہو شاید
آنکھوں میں کچھ نمی نمی ہے
ابھی ابھی محسوس ہوا ہے
تو کھڑکی سے جھانک رہی ہے
اب تو کانٹے بونے ہوں گے
پھولوں کی رُت بیت چلی ہے
میں خود اپنے پاس نہیں ہوں
کیسی ستم کی تنہائی ہے
کہتا ہوں پل پل ساتھ گزارا
لیکن یہ سب تحریری ہے
خط بھیجوں ، خود آؤں نہ آؤں
کہہ دے جو تیری مرضی ہے
تیرے بنِا میں بدل گیا ہوں
مجھ سے جدا تو پھر بھی وہی ہے
میں بھی دیوانہ پاگل ہوں
تو بھی بے حد جذباتی ہے
میرے بنا کیا کھایا تو نے
جانے کیا ساری پہنی ہے
یہ میرا کیا پاگل پن ہے
کیسی الٹی سوچ لگی ہے
تم بھی عبیدؔ اب تو سو جاؤ
رات کو بھی نیند آنے لگی ہے