اس بات کی حقیقت کیا تھا ؟ کوئی نہیں جانتا تھا سوائے عالیہ اور آذر کے یا پھر اللہ کے۔ ذکیہ بیگم کے ذہن میں نہ جانے کیا کیا خدشات ابھر رہے تھے۔اور وہ کسی انجانے خطر ے کو اپنے گھرانے کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔ اس شش و پنج میں دوپہر کے دو بج گئے اور گرمیوں کا موسم تھا، کمرے کا اے سی فل تھا جس کی وجہ سے کمرے میں کافی خنکی تھی، لیکن ذکیہ بیگم کے دل و دماغ میں جیسے آگ دہک رہی تھی ۔اور وہ سوچ سوچ کر پریشان ہورہیں تھی کہ اگر عالیہ کے والد اقبال صاحب کو اس بات کا علم ہوجائے تو وہ نہ جانے کیا کریں۔ اور ذکیہ بیگم دل میں دعائیں مانگ رہیں تھی کہ اقبال صاحب کے آنے سے پہلے عالیہ کو ہوش آجائے تو وہ اس سے ساری بات پوچھ سکیں کہ اس کے آذر کے مابین ایسا کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے اس کی یہ حالت ہوگئی ہے، لیکن عالیہ تھی کہ ہوش میں آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ ذکیہ بیگم نہ
جانے کن خیالوں میں گم تھیں کہ اسی اثناءاقبال صاحب کمرے میں داخل ہوئے، لیکن ذکیہ بیگم کو ان کے آنے کی زرا بھر بھی خبر نہ ہوئی،کچھ لمحے تو اقبال صاحب اپنی بیگم کی اس کیفیت کو دیکھتے رہے لیکن جب ان سے رہا نہ گیا تو انہوں نے ذکیہ بیگم کا کندھا ہلا کر پوچھا بھئی بیگم خیریت توہے تم بہت گم سم بیٹھی ہوئی ہو۔ جس پر ذکیہ بیگم نے کہا کہ بس بیٹی کی وجہ سے پریشان ہوں۔ اس پر اقبال صاحب مسکراتے ہوئے بولے، بیگم پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں میں ڈاکٹر سے مل کرآرہا ہوں ، انہوں نے بتایا ہیکہ عالیہ اب بالکل ٹھیک ہے جیسے ہی اس کو ہوش آیا اسے ہسپتال سے فارغ کردیا جائے گا۔ اقبال صاحب کی بات سن کر ذکیہ بیگم کو خوشی ہوئی لیکن وہ دل ہی دل میں ڈر رہی تھی کہ اگر اقبال صاحب کے ہوتے ہوئے عالیہ کو ہوش آگیا او ر اس نے وہی الفاظ دہرادئیے تو قیامت کھڑی ہوجائے گی۔وہ من ہی من میں دعا مانگ رہی تھی کہ کسی طرح اقبال صاحب یہاں سے ہٹ جائیں۔ وہ انہی سوچوں میں گم تھی کہ اقبال صاحب پرجوش آواز میں چلائے کہ بیگم دیکھو ہماری بیٹی کو ہوش آرہا ہے، ذکیہ بیگم کی تو جیسے جان ہی نکل گئی۔انہوں نے عالیہ کی طرف دیکھا تو عالیہ آنکھیں کھولے ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔ چند ثانیے دیکھنے کے بعد عالیہ نے اُٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی لیکن اقبال صاحب نے اس کو ایسا کرنے سے منع کردیا، اور کہا کہ بیٹا ابھی مت اٹھو ابھی تو تمہیں ہوش آیا ہے، جس پر عالیہ لیٹ گئی اور پوچھنے لگی کہ :
میں کہاں ہوں؟
مجھے کیا ہوا ہے؟
جس پر اقبال صاحب نے بتایا کہ کچھ نہیں بیٹا آپ کی طبیعت تھوڑی خراب ہوگئی تھی اس وجہ سے آپکو ہسپتال لانا پڑا، بس تھوڑ ی دیر میں سب ٹھیک ہوجائے گا۔ عالیہ سے اتنی بات کرنے کے بعد اقبال صاحب ذکیہ بیگم سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ میں ذرا ڈاکٹر کو دیکھتا ہوں تم اس کا خیال رکھنا، ذکیہ بیگم اپنے رب کا شکر ادا کررہی تھیں کہ عالیہ نے دوبارہ وہ الفاظ نہیں دہرائے تھے۔تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر آیا اس نے عالیہ کا چیک اپ کیا اور اقبال صاحب سے کہا جناب ابھی آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے عالیہ بیٹی بالکل ٹھیک ہے ، لیکن ذرا کمزوری ہے لہذا میں اس کو ایک دو دن میں یہاں سے فارغ کردوں گا۔ ڈاکٹر کے جانے کے بعد اقبال صاحب تھوڑی دیر وہاں بیٹھے اور پھرشام کو آنے کا کہہ کر وہاں سے چلے گئے۔
ذکیہ بیگم نے سکون کا سانس لیا کہ سب کچھ ٹھیک رہا۔ عالیہ اب ہوش میں تھی لیکن آنکھیں بند کئے لیٹی ہوئی تھی، ذکیہ بیگم نے آہستہ سے آواز دی عالیہ بیٹا کی تم جاگ رہی ہو؟عالیہ نے فورا آنکھیں کھول دیں، ذکیہ بیگم نے پوچھا اب طبیعت کیسی ہے؟ عالیہ نے سر کے اشارے سے بتایا کہ ٹھیک ہے۔ جس پر ذکیہ بیگم نے کہا چلو شکر ہے ورنہ ہم سب لوگ تو بہت پریشان تھے۔ ذکیہ بیگم نے ابھی عالیہ سے کچھ پوچھنے سے گریز کیا تھا ، کیونکہ ابھی ابھی اس کو ہوش آیاتھا۔ ذکیہ بیگم عالیہ کو آرام کرنے کا کہہ کر وہاں سے چلی گئی تاکہ اپنے رب کے حضور شکرانے کے نفل ادا کرسکیں۔ جب نفل پڑھنے کے بعد ذکیہ بیگم کمرے میں داخل ہوئی تو عالیہ جاگ رہی تھی بلکہ اس کی حالت پہلے سے بہتر لگ رہی تھی۔ ذکیہ بیگم نے اس کے ماتھے کا بوسہ لیا اور کرسی کو بیڈ کے نزدیک کرکے بیٹھ گئیں۔ تھوڑی دیر کے بعد کمرے کی خاموشی کو عالیہ نے توڑا ، اس نے
پوچھا ماما مجھے کیا ہواتھا،
ہم لوگ تو سیر پر جانے کی تیاریاں کررہے تھے نا؟
اور میں بہت خوش تھی ، کیونکہ آذر بھی ساتھ جارہا تھا۔
اور پھر میری آذر کے ساتھ فون پر بات بھی تو ہوئی تھی۔
اور آذر............................اس کے بعد عالیہ خاموش ہوگئی اور سسکنا شروع کردیا۔
ذکیہ بیگم کچھ دیر تو انتظار کرتی رہی، لیکن جب عالیہ کچھ نہ بولی تو انہوں نے خود پوچھا۔
بیٹا: کیا ہوا آذر کو ؟
کیا کہا اس نے کہ تمہاری طبیعت اتنی خراب ہوگئی؟
ماں کی بات سننے کے بعد عالیہ نے اپنی آنکھیں صاف کیں اور کچھ دیر خلا میں گھورتی رہی اور پھراپنی ماں سے سوال کیا:
ماں ! کیا آپ مجھے بتائیں گی کہ یہ محبت کیا ہے؟
ذکیہ بیگم عالیہ کی بات سن کر خاموش ہوگئیں، تو عالیہ نے اپنا سوال دوبارہ دہرایا
تو ذکیہ بیگم نے کہا کہ بیٹا! محبت ایک انمول جذبہ ہے جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا، محبت انسان کو انسان بنادیتی ہے۔ محبت تو خدا نے بھی کی ہے ، اور محبت تو فرشتوں نے بھی کی ہے ، لیکن تم یہ سوال کیوں پوچھ رہی ہو؟ عالیہ نے کہا ماما کیا محبت صرف جسم کو پانے کا نام ہے، کیا محبت تبھی مکمل ہوتی ہے جب دو جسم آپس میں ملیں۔ بیٹی کی باتیں سن کر ذکیہ بیگم دنگ رہ گئیں اور بولی بیٹا کیا ہوگیا ہے۔
عالیہ نے جواب دیا
ماما مجھے کچھ نہیں ہوا ، میں بالکل ٹھیک ہوں، بلکہ ابھی میں ٹھیک ہوئی ہوں۔
میں اس آذر سے بے پناہ محبت کرتی تھی، اپنے آپ سے بڑھ کر، اپنے ماں باپ سے بھی زیادہ بلکہ میں اس کو اپنا خدا مانتی تھی، اس کی پوجا کرتی تھی لیکن شاید وہ اس لائق ہی نہ تھا۔اس نے اپنی اصلیت دکھا دی ، شکر ہے میری اس سے شادی نہیں ہوئی۔ ماں بیٹی کی باتیں سن کر سکتے میں آگئی اور پوچھا بیٹا بتاﺅ تو سہی ہوا کیا ہے؟ ایسی کیا بات ہوگئی ہے؟
عالیہ نے بتایا کہ پچھلے ایک سال سے آذر اس سے عجیب قسم کی ڈیمانڈز کررہا تھا، لیکن میں نے اس کا مذاق سمجھ کر منع کردیا۔ اور ایک دن وہ مجھے اپنے ایک دوست کے گھر لے گیا اور مجھ سے کہا کہ میں اس کے ساتھ وہ کام کروں جس کام کی اجازت اسلام شادی سے پہلے نہیں دیتا۔ میں نے اس کو بہت سمجھایا لیکن
وہ نہیں مانا، جس پر میں اس سے ناراض ہوکر وہاں سے چلی آئی ، اور اس نے بھی مجھے بلانا چھوڑ دیا بلکہ جہاں کہیں بھی ملتا ، مجھے اگنور کرتا اور اس نے اپنے تعلقات غلط قسم کی لڑکیوں سے استوار کرلئے تھے۔
میرا خیال تھا کہ وہ مجھے جیلس کرنے کےلئے یہ کام کرتا ہے ،اور اس رات میں نے اس کو فون کیا کہ میں اسے بتاﺅں کہ ہم لوگ اکھٹے سیرکرنے جارہے ہیں ، اور مجھے لگتا تھا کہ شائد وہاں جا کر وہ ٹھیک ہوجائے گا۔ لیکن جب میں نے اس کو جانے کے بارے میں کہا تو اس نے پھر مجھ سے وہی ڈیمانڈ کی۔ میں نے منع کیا تو اس نے کہا ایک تو تم مجھ سے محبت کرنے کا دعوی کرتی ہو لیکن میری اتنی سی بات نہیں مان سکتی۔ میں اس کی بات سن کر سکتے میں آگئی۔ میںنے اس سے کہا کہ اگر تم مجھے کہو تو میں تمہاری خاطر اپنی جان دے دیتی ہوں لیکن یہ کام مجھ سے نہیں ہوگا۔
ٓاس پر آذر نے کہا! جو کبھی رانجھا، مجنوں، اور فرہاد سے زیادہ محبت کرنے کے دعوے کرتا تھا۔ کہ میں نہیں مانتا محبت کو ، محبت کچھ نہیں ہے ، آج کے دور میں کوئی کسی سے محبت نہیں کرتا، نہ ہی میں، نہ تم اور نہ ہی اور کوئی اور ہاں جوباتیں میں نے تم سے کیں تھی وہ صرف تمہیں متاثر کرنے کےلئے۔ اس لئے ان باتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ اور تم آج سے میرے لئے مرگئی۔ اور میں آئندہ تمہاری شکل نہیں دیکھنا چاہتا۔
اس کی یہ باتیں سن کر میرا دل چاہا کہ کاش! اسی وقت زمین پھٹے اور میں اس میں سما جاﺅں، میرے ہر سو اندھیرا ہی اندھیرا تھا اور اس کے بعد مجھے ہوش ہی نہیں رہا۔
اپنی بات مکمل کرنے کے بعد اس نے اپنی ماں کے کندھے پر سر رکھ دیا اور ذکیہ بیگم نے بھی اس کو نہیں روکا ، کیونکہ وہ چاہتی تھیں کہ اس کے دل کا جتنا بھی غبار ہے وہ نکل جائے۔
رانا عدنان شاہد
گوجرانوالہ04-10-2007